#عالمی اخبار بلاگ RSS Feed عالمی اخبار بلاگ » جشن ظہور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو Comments Feed کئیر ٹیکر وزیر اعلیٰ ھمارے ملک کی سیاست اور الیکشن کے بعد کی صورت حال پر نظم [aalmiakhbar_logo.jpg] [ayaat_top.jpg] [mission_statement.jpg] [USEMAP:main_menu.jpg] 2015 ,January 09 جشن ظہور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو نگھت نسیم ، بتاریخ March 29, 2013 نام : علی ابنِ حسین علیہ السلام کنیت : ابو محمد لقب : زین العابدین، سید السجاد والد محترم : حسین ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام والدہ محترمہ : بی بی شہر بانو تاریخِ ولادت: 15 جمادی الاول سن 38 ھ تاریخِ شہادت: 25 محرم سن 95 ھ آپ کی ولادت بعض روایات کے مطابق 15 جمادی الاول اور بعض روایات کے مطابق 15 جمادی الثانی کو ہوئی جبکہ سالِ ولادت 38ھ تھا اور اس وقت ان کے دادا حضرت علی عليہ سلام عالمِ اسلام کے خلیفہ تھے۔ آپ کا نام آپ کے دادا کے نام پر علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن اور ابوالقاسم رکھی گئی۔ ولادت کے چند دن بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد آپ کی خالہ گیہان بانو جو محمد بن ابی بکر کی زوجہ تھیں اور انہوں نے محمد بن ابی بکر کے انتقال کے بعد شادی نہیں کی تھی، نے آپ کی پرورش کی۔ دو سال کی عمر میں آپ کے دادا حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام عليہ سلام کو شہید کر دیا گیا آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھاعلامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے آپ کا نام سید الساجدین اور سجاد پڑ گیا تھا۔ علامہ ابن حجر مکی نے لکھا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کے سامنے آپ کی برائی کی مگر آپ خاموش رہے تو اس شخص نے کہا کہ اے علی ابن الحسین میں آپ سے مخاطب ہوں تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ: ”جاہلوں کی بات کی پروا نہ کرو اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں۔ ایک شامی نے حضرت علی عليہ سلام کو آپ کے سامنے گالیاں دیں تو آپ نے فرمایا اے شخص تو مسافر معلوم ہوتا ہے اگر کوئی حاجت ہےتو بتا۔ اس پر وہ شخص سخت شرمندہ ہو کر چلا گیا۔“ سن 57 ھ میں آپ کی شادی آپ کے چچا حضرت حسن بن علی بن ابو طالب علیہ السلام کی بیٹی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ کے گیارہ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں جن میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اورحضرت زید شہید مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا 10 محرم سن 61 ھ کو پیش آیا 28 رجب سن 60 ھ کو آپ (ع) اپنے والد امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ مدینہ سے مکہ تشریف لائے اور 8 ذی الحجہ سن 60 ھ کو جب امام حسین علیہ السلام حج کو عمرہ سے بدل کر عازمِ سوئے کربلا ہوئے تو امام سجاد علیہ السلام بھی آپ کے ھمراہ تھے۔ کربلا آنے کے بعدازنِ خدا سے آپ انتہائی بیمار ہو گئے یہاں تک کہ 10 محرم کو غشی کی حالت طاری تھی اس لیے اس قابل نہ تھے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت پر فائز ہوتے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے61 ھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں ۔ 10 محرم کی شام کویزیدی فوج نے اہلیبیت علیہ السلام کےتمام خیموں کو آگ لگا دی تمام بییبیاں ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں منتقل ہوتی رہیں بالآخرامام وقت کے حکم پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر بیبیاں خیموں سے باہر آگئیں اس کے بعد تو ظلم کی انتہا ہوگئی اور تمام بیبیوں کی چادریں چھین لی گئیں۔ 11 محرم کو آپ کے اہلِ حرم کو بے کجاوہ اؤنٹوں پرسوار کیا گیا اور امام (ع) کے گلے میں لوہے کاطوق اور ہاتھوں میں ھتکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین علیہ السلام کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گئے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول سن 61 ھ کو دمشق پہنچا اور عورتوں اور بچوں کو رسیوں میں بندھا ہوا دربارِ یزید میں پیش کیا گیا ایک سال کی قید و صعوبت کی مشکلات سہ کر آپ 8 ربیع الاول سن 62 ھ کو مدینے واپس تشریف لائے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت اور نبی (ص) کی آل کی بازارِ شام اور کوفہ میں کی گئی بے حرمتی پر گریہ کرتے رہے۔ آپ کی زیادہ تر زندگی عبادت اور گریہ میں گزری وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جب امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کہاں پر زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا آپ آہ بھرتے اورفرماتے الشام ، الشام ، الشام۔ آپ (ع) کو اس بات کا سب سے زیادہ قلق تھا نبی زادیوں کو سر برہنہ فاسق و فاجر یزید معلون کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔ آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ: ”اے لوگوجومجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پرپیاسا ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔“ دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے: ”۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔“ یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تویزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے،چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں،اگرچہ کہ اذان کا وقت تھا نہ نماز کا مگر یزید کے حکم پر اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا’۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔آپ ربیع الاول 62 ھ کو مدینہ واپس پہنچے۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پہنچے تو قبر مطہر پرگال رگڑ کر چند اشعار پڑھ کر فریاد پیش کی جن کا ترجمہ یوں ہے: ” میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اے نانا۔ اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر آپ کا محبوب ‘حسین’ شہید کر دیاگیا اور آپ کی نسل تباہ و برباد کر دی گئی۔ اے نانا میں رنج و غم کا مارا آپ سے فریاد کرتا ہوں کہ مجھے قید کیا گیا اور میرا کوئی حامی اور مدافعت کرنے والا نہ تھا۔ اے نانا ہم سب کو اس طرح قید کیا گیا جیسے لاوارث کنیزوں کو قید کیا جاتا ہے۔ اے نانا ہم پر اتنے مصائب ڈھائے گئے جن کو انگلیوں پر گنا نہیں جا سکتا“۔ مروان ابن الحکم کے مرنے کے بعدسن 65ھ میں عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا اس نےحجاج بن یوسف کو حجاز کا گورنر بنا دیا کیونکہ حجاج نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کرکے حجاز پر قبضہ کیا تھا۔ حجاج نے کعبہ پر سنگ باری کی تھی اور اسے تباہ کر دیا تھا حتی کہ اس کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو حکم دیا تھا کہ حضرت علی ابن الحسین کو گرفتار کر کے شام پہنچا دیا جائے چنانچہ اس نے انہیں زنجیروں سے باندھ کر مدینہ سے باہر ایک خیمہ میں رکھوایا۔ علامہ ابن حجر مکی کے مطابق عبدالملک بن مروان کو کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ حضرت علی ابن الحسین خلافت سے کوئی غرض نہیں رکھتے اس لیے انہیں نہ چھیڑا جائے۔ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو پیغام دیا کہ بنی ہاشم کو ستانے اور ان کا خون بہانے سے پرہیز و اجتناب کرو کیونکہ بنی امیہ کے اکثر بادشاہ انہیں ستا کر جلد تباہ ہو گئے۔ اس کے بعد انہیں حجاج نے چھوڑ دیا اور عبدالملک بن مروان کی زندگی میں زیادہ تنگ نہ کیا گیا۔جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔ اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں، چنانچہ 95 ھ میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دے دیا ، امام مظلوم حضرت علی ابنِ حسین ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام 25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے۔ آپ کی تجہیز و تکفین آپ کے فرزند اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں امام حسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کے پہلو میں کی گئی آپ کی شہادت کے بعد آپ کا ایک اؤنٹ آپ (ع) کی قبرِ مبارک پر فریاد کرتا رہا اور ۳ دن میں مر گیا۔ ( اس تحریر کو کراچی سے بھائی جعفر حسین نے لکھا ) __________________________________________ 13 تبصرے برائے “جشن ظہور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو” 1. صفدر ھمٰدانی نے کہا ہے: March 29, 2013 بوقت 9:45 am کاش عالم اسلام اس خانوادے کو پہچانتا تو آج اس کسمپرسی میں نہ ہوتا۔ آپکا شکریہ نگہت کہ ہم سبکو یہ یاد دلایا۔ ہم نے یوں بھی کتنے ہی روشن باب مصلحتوں اور مسلکوں کے جزدان میں لپیٹ کر رکھے ہوئے ہیں 2. شمس جیلانی نے کہا ہے: March 29, 2013 بوقت 11:28 am حضرت امام زین العابدین کاصرف ایک استدلال تمام دلیلوں پر حاوی ہے۔ کہ پہلے تو وہ خاموش تھے جب انہیں یہ طعنہ دیاگیا۔ کہ آپ کوشکست اور اللہ نے ہمیں فتح دی ،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے؟ اس کے جواب میں جو انہوں نے فرمایا وہ رہتی دنیا تک بطور دلیل مظلوم پیش کر تے رہیں گے۔کیا تم نے قر آن میں یہ نہیں پڑھا “ ان اللہ مع الصابرین“ (بلاشبہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اس جواب نے یہ حقیقت واضح کردی کہ قرآن میں جہاں بھی ظالموں کا ذکر ہے وہ ذلت کے ساتھ ہے؟ 3. نگھت نسیم نے کہا ہے: March 29, 2013 بوقت 1:09 pm عابد نے ایسے طوقِ گراں بار کاٹ دی سائے نے جیسے دھوپ کی دیوار کاٹ دی دیکھا بوقت عصر یہ سورج نے معجزہ پیاسے گلے نے شمر کی تلوار کاٹ دی صفدر ھمدانی 4. عالم آرا نے کہا ہے: March 29, 2013 بوقت 3:41 pm اسلام علیکم ساتھیو بہن نگہت نسیم حضرت امام زین العابدین کے بارے میں اتنی ساری معلومات دینے کے لئے جزاک اللہ خیر شمس جیلانی بھائی سلامت رہیں ۔ حضرت امام زین العابدین کاصرف ایک استدلال تمام دلیلوں پر حاوی ہے۔ کہ پہلے تو وہ خاموش تھے جب انہیں یہ طعنہ دیاگیا۔ کہ آپ کوشکست اور اللہ نے ہمیں فتح دی ،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے؟ اس کے جواب میں جو انہوں نے فرمایا وہ رہتی دنیا تک بطور دلیل مظلوم پیش کر تے رہیں گے۔کیا تم نے قر آن میں یہ نہیں پڑھا “ ان اللہ مع الصابرین“ (بلاشبہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اس جواب نے یہ حقیقت واضح کردی کہ قرآن میں جہاں بھی ظالموں کا ذکر ہے وہ ذلت کے ساتھ ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسوئہ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین عالم آرا 5. سیّدہ زائرہ عابدی نے کہا ہے: March 30, 2013 بوقت 12:15 am میری جانب سے بھی شرف اما مت پر قائم امام چہارم حضرت سیّد سجّاد امام زین العابدین علیہا السّلا م کا یوم ولادت کل عالمین کے مو منین کو مبارک ہو ، سپاس گزار زائرہ بجّو 6. سیّدہ زائرہ عابدی نے کہا ہے: March 30, 2013 بوقت 12:27 am ایک مرتبہ کچھ فسادی لوگ آپ کی اما مت کو مشکوک قرار دے کر آپ کے ایک اور بھائ کو اما مت کے منصب کے لئے مدّمقابل لائے ،بھائ خود بھی پریشان ہو کر کہنے لگے ،نہیں ایسا نہیں ہئے اما مت صرف سیّد سجّاد کا حق ہئے لیکن جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو آ پ کے بھائ نے کہا چلو حجر اسود سے گواہی لیتے ہیں ، چنانچہ تمام افراد مع جناب زین العابدین کے خانہء کعبہ کے پاس آئے پہلے آپ کے بھائ کی گواہی کے لئے ان کو ھجر اسود کے سامنے لایا گیا حجر اسود بلکل خاموش رہا آپ کے بھائ پھر وہاں سے ہٹ گئے تب اما م زین العابدین نے جونہی حجر اسود جانے کے لئے اس کے سامنے قدم بڑھا ئےویسے ہی حجر اسود سے آواز آ ئ ،اسّلام علیک یا اما م زین العابدین علیہ السّلام اور تمام افراد( ماسوائے چند افراد کے )نے آپ کی ہی امامت کو تسلیم کر لیا ، لیکن جن افراد نے آپ کی امامت کو تسلیم نہیں کیا انہوں نے ہی آ پ کے بھائ کو اپنا امام بنا کر اسمٰعیلی فرقے کی بنیاد رکھّی 7. نوشی عقیل نے کہا ہے: March 30, 2013 بوقت 1:42 pm جزاک اللہ آپی نگہت، پڑھ کر میری معلومات میں بہت اضافہ ھوا۔۔ 8. ظفر جعفری نے کہا ہے: March 30, 2013 بوقت 5:10 pm امام حسین کی شہادت کے بعد اسلام نزع کے عالم میں تھا۔ اسلام کے revival میں جو کردار امام زینا لعابدین ع س کا ہے اُس پر بہت کم رشنی ڈالی گئ ہے۔ اس بیڑہ کو تنِ تنہا امام زینا لعابدین ع س نے اُٹھایا اور اپنی زندگی کے باقی چالیس سال اس پر صرف کردئے۔ امام کا شریعت اور فقہ کا اسکول نمازِ فجر کے بعد شروع ہوکر عشاء کے بعد تک جاری رہتا تھا۔ رسولِ کریم نے جو تعلیمات دی تھیں اُن پر حکومتِ وقت مٹی ڈال رہی تھی جس کا مقابلہ امام زینا لعابدین ع س نے اپنے مدرسہ کے توسط سے کیا اور اسلام کو revive کیا۔ امام زینا لعابدین ع س کی ایک دعاؤں کی کتاب صحیفہء کاملہ ہے جو جامعہ الازہر کے نصاب کا حصہ ہے۔ صحیفہء کاملہ حکمت کا بہترین نمونہ ہے۔ حکومتِ وقت کے جبراوراسکی دہشت گردی کی وجہ سے شریعت اور تعلیماتِ رسول کی تبلیغ پر ہر قسم کی پابندی عائد کردی گئ تھی۔ اپنی کتاب صحیفہء کلامہ میں امام زینا لعابدین ع س نے دعاؤں کے ذریعہ اپنے پیغام اور اسلامی تعلیمات کو عوام تک پہنچایا ہے۔ 9. ظفر جعفری نے کہا ہے: March 30, 2013 بوقت 5:14 pm صحیفہء کاملہ کا اردو ترجمہ ہوچکاہے۔ یہ کتاب پاکسان میں دستیاب ہے۔ 10. سیّدہ زائرہ عابدی نے کہا ہے: March 31, 2013 بوقت 2:13 am جزاک اللہ تمام ساتھی بلاگرز کے لئے، 11. شاھین حیدر رضوی نے کہا ہے: March 31, 2013 بوقت 7:16 am جزاک اللہ اللہ پاک اچھے بھائ جعفر بھائ کو اجر عطا فرماۓ آمین ثم آمین اللہ پاک ھماری بہت ھی پیاری عزيز دلاری اور بہت قابل احترام بہن اور دل جگر دوست ڈاکٹر نگہت نسیم کو انکی تمام دینی کاوشوں کا اجر دارین میں عطا فرماۓ آمین انکا قلم ھمشیہ حق و صداقت کا پیامبر رھا ھے یہی خوشبو وفا انکے قلم کو ممیز کرتی ھے ھر اچھے کام میں ھمشیہ سبقت حاصل کرنے کا شرف بھی انھی کو ملا ھے اللہ پاک ھمشیہ ڈاکٹر نگہت نسیم کو اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین ثم آمین گو بلاگ کی عمر 3 دن کی ھوچکی ھے مگر ا‏ئمہ کا تذکرہ جب بھی کرو روح خوش ھوتی ھے ایمان کو تروتازکی ملتی ھے سبحان اللہ ھمارے امام چہارم کی ولادت مبارکہ و مشرفہ کا جشن آپ سبکو مبارک ھو جشن ظہور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو جشن ولادت سید الصابرین سید الراکعین و سید ساجدین آپ سب کو مبارک ھو ائمہ علیہ السلام کے لبوں سے نکلا ہوا کلام امام الکلام بن جاتا ہے چاہے وہ نہج البلاغہ ہو یا صحیفہ کاملہ۔نہج البلاغہ اپنے اسلوب میں علی(ع) کی شجاعت اور فصاحت کی عکاسی کرتی ہے۔ شارع نہج البلاغہ استاد محمد عبدہ ( مصری) کے بموجب نہج البلاغہ میں ”بلاغت کا زور ہے فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں طلاقت کی فوجیں شمشیر زنی میں مصروف ہیں۔ علی علیہ السلام کا طرز خطاب وہی ہے جو ایک امام کا ماموم سے بر سر منبر ہونا چاہئے اور جو سلونی کے مبارزہ سے ایک امتیازی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس کے بر خلاف صحیفہ کاملہ کا اسلوب موعظہ، انکساری ، دعائیہ اور مناجاتی ہے کیونکہ انسان کو مانگنے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ یہ ایک ادبی معجزہ ہے جس میں دعا بھی ہے اور نیکی کے راستے پر چلنے کی دعوت بھی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے اس کی تدوین و ترتیب مین کس قدر احتیاط کی ضرورت تھی۔ صحیفہ کے مطالعہ سے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی الحاح و زاری اور مناجات کا فطری احساس ہوتا ہے جو خلوص کی علامت ہے۔ میری اچھی دوست اور بہت اچھی بہن اکٹر نگہت نسیم نے مودت امام چہارم کو منظوم کیا ھے جو ایک بہت ھی بڑي دولت ھے جس سے میرے مولا نے انکا دامن مراد بھرا ھے جزاک اللہ امام سید زین العابدین علیہ اسلام کا دورِ حیات اہلبیتِ پیغمبرﷺ کے لئے سخت ترین زمانہ تھا ، اس دور میں اموی حکمرانوں کی طرف سے شیعوں کے اماموں کو بہت سی پابندیوں کا سامنا تھا، یہی وجہ ہے کہ اُس گھٹن کے ماحول میں امام سجّاد علیہ السّلام کے لئے تفسیرِقرآن ، فقہ اور دیگر علوم کی تعلیم و تدریس کا ماحول سازگار نہیں تھا ۔ آپ نے اسلام کی بہت سی خالص تعلیمات کو صحیفۂ سجّادیہ کی دعاؤں کی شکل میں بیان فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ صحیفۂ سجّادیہ میں ، معرفتِ الٰہی ، تخلیقِ کائنات،عالمِ غیب اور فرشتوں،انبیائے کرام کی رسالت ، پیغمبرﷺ اور اہلبیت علیہم السّلام کے مرتبہ اور منزلت ، اخلاقی محاسن اوربرے اخلاق، انسان کے مختلف حالات ، لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کے ہتھکنڈوں ، مختلف ایام کی یاد منانے ، سماجی اور اقتصادی مسائل ، تاریخ اور سیرت ، خدا کی قدرت کے مظاہر کی طرف توجّہ دلانے، خدا کی مختلف نعمتوں کی یاد دہانی اور شکر و سپاس کی ذمّہ داری کا احساس بیدار کرنے، قدرت کی انفسی(اندرونی) اور آفاقی (بیرونی ) نشانیوں کی طرف متوجّہ کرنے ، آدابِ دعا ، تلاوت ، نماز وعبادت کے علاوہ صحیفۂ سجّادیہ میں دسیوں دیگر اہم موضوعات بھی جلوہ گر ہیں ، شکل دعا کی ہے لیکن ان دعاؤں کے مضامین میں دین، اخلاقی اقدار، قرآنی تعلیمات ، عبادت اور بندگی کے آداب کو نہایت حسین انداز سے پیش کیا گیا ہے ۔ صحیفۂ سجّادیہ ۵۴ دعاؤں پر مشتمل ہے ، ان میں سے بعض دعائیں مفصّل اور طویل ہیں اور کچھ دعائیں نسبتاً مختصر ہیں۔ ان دعاؤں کو پڑھنے کی مختلف مناسبتوں اور مواقع کو صحیفۂ سجادیہ کی فہرست میں بیان کیا گیا ہے ، اس سلسلہ میں اس کی فہرست کی طرف رجوع کیا جا دسکتا ہے ، ان دعاؤں میں سے بعض کے عناوین درجِ ذیل ہیں: خدا ، حاملانِ عرش اور فرشتوں کی حمد و ثنا میں دعا، اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے حق میں دعا، مشکلات و مصائب میں دعا، خدا کی پناہ طلب کرنے کے لئے ، گناہوں کی مغفرت کے لئے ، گناہوں کے اقرار کے لئے ، حاجت طلب کرنے کے لئے ، بیماری کی حالت میں ، شیطانِ مردود سے خدا کی پناہ مانگنے کے لئے ، اچھے اخلاق کے لئے، تندرستی کے لئے ، ماں باپ اور اولاد کے لئے ، پڑوسیوں اور دوستوں کے لئے ، سرحدوں کے محافظوں کے لئے ، توبہ کے لئے ، وسعتِ رزق کے لئے ، رعدو برق کے وقت ، نئے مہینہ کا چاند دیکھنے کے وقت ، ماہ رمضان کی آمد اور اختتام کے موقع پر ، عیدِ فطر اور عرفہ کے موقع پر ، ختمِ قرآن کی دعا اور اس کے علاوہ دسیوں دیگر مناسبتوں پر پڑھی جانے والی دعائیں۔ مختلف مناسبتوں سے اس طریقہ کے استفادے سے ایک دعا گزاراور خدا سے مانوس مسلمان کا کوئی وقت خالی نہیں بچتا چونکہ اس کی زندگی کے لمحہ لمحہ کے لئے پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں راز و نیاز کے لئے دستور العمل موجود ہے ۔ = 12. سیدہ رافیعہ گیلانی نے کہا ہے: April 1, 2013 بوقت 9:56 am جزاک اللہ بہن نگھت جی اتنی پیاری تحریر میں دیر سے پڑھ سکی بجلی کی بندش کی وجہ سے بہت دقت کا سامنا ھے آپ کو اللہ اپنی امان میں رکھے بہت معلوماتی بلاگ ھے امام علیہ السلام کے بارے میں شکریہ لکھنے کا 13. سیدہ رافیعہ گیلانی نے کہا ہے: April 1, 2013 بوقت 9:56 am جزاک اللہ بہن نگھت جی اتنی پیاری تحریر میں دیر سے پڑھ سکی بجلی کی بندش کی وجہ سے بہت دقت کا سامنا ھے آپ کو اللہ اپنی امان میں رکھے بہت معلوماتی بلاگ ھے امام علیہ السلام کے بارے میں شکریہ لکھنے کا جواب لکھیں ای میل (پبلش نہیں کی جائے گی) (درکار) ______________________ نام (درکار) ______________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ _______________________________________________________________________ تبصرہ ارسال کریں __________________________________________________________________ [spacer.gif] مضامین (آر ایس ایس) اور تبصرے (آر ایس ایس). عالمی اخبار کے ادارتی عملے میں مختلف عالمی اداروں کے اپنے اپنے شعبے کے ماہرین شامل ہیں اور اس اخبار میں خبروں،تبصروں اور کالموں کے علاوہ ہر موضوع اور ہر کسی کے لیئے مواد موجود ہے۔ عالمی اخبار کی پالیسی صاف ستھری ،آزادانہ اور بے لاگ صحافت ہے۔ . رابطہ ٹیلی فون: لندن447796515479+ ، آسٹریلیا 61425201035+ ، ای میل: رابطہ@عالمی اخبار۔کوم۔ جملہ حقوق بحق عالمی اخبار۔کوم محفوظ ہیں