دہلی میں مشاعرہ جشن بہار کی بہار

  • 5 اپريل 2014
دہلی میں منعقد ہونے والا جشن بہار کا یہ سولہواں مشاعرہ معروف دانشور خوشونت سنگھ کے نام کیا گیا

بھارت اور پاکستان کی مشترکہ لسانی، ادبی اور تہذیبی روایت کا امین مشاعرہ جشن بہار جمعہ اور سنیچر کی شب دہلی میں منعقد کیا گیا جس میں بھارت اور پاکستان کے علاوہ، جاپان، تاجکستان اور ترکی کے متعدد شعراء نے شرکت کی۔

مشاعرے کو حال ہی میں دنیا کو الوداع کہنے والے بھارت کے معروف دانشور، ادیب اور سکالر خوشونت سنگھ کے نام سے منسوب کیا گیا کیونکہ جشن بہار ٹرسٹ کی بانی کامنا پرشاد کے مطابق خوشونت سنگھ نہ صرف اردو زبان کے پرستاروں میں تھے بلکہ اس مشاعرے کے روح روانوں میں شامل تھے۔

مشاعرے کی صدارت کی ذمہ داری بھارت کی پلاننگ کمیشن کی رکن سیدہ سیدین حمید نے سنبھالی جبکہ مہمان خصوصی میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس ٹی ایس ٹھاکر تھے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت اور جنوبی افریقہ کے سیمی فائنل کے باوجود اردو اور مشاعرے کے شائقین دہلی پبلک سکول میں ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔

مشاعرے کی نظامت کرتے ہوئے منصور عثمانی نے کہا:

جہاں جہاں کوئی اردو زبان بولتا ہے وہاں وہاں میرا ہندوستان بولتا ہے

سری نگر، کشمیر سے ترنم ریاض نے سرحدوں اور وادي لولاب پر ایک نظم سنائی

اردو زبان و ادب کی کشادہ دلی، حفظ مراتب، شیرینی، سلیقہ اور شائستگی کا ذکر کرتے ہوئے جشن بہار ٹرسٹ کی بانی کامنا پرشاد نے کہا کہ نوجوان نسل اور ایوان کے اراکین کو اردو کا ایک تعارفی کورس ضرور کرنا چاہیے تاکہ ان میں بھی اس زبان کی شائستگی اور سلیقہ آ جائے۔

انھوں نے کہا ’ہر کسی کو اردو زبان سیکھنی چاہیے کیونکہ اردو زبان و ادب ہی ہمیں مؤثر طریقے سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرنا سکھاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہمارے ممبران پارلیمنٹ نے یہ زبان سیکھی ہوتی تو ہمیں ایوان کے اندر ہونے والے اشتعال انگیز نظارے کا سامنا نہ ہوتا۔‘

پاکستان سے آنے والے شعرا میں کبھی احمد فراز بھی ہوا کرتے تھے لیکن کراچی کے احمد سلمان نے اپنے کلام سے لوگوں کی خوب داد حاصل کی اور انھیں دوبارہ اسٹیج پر کلام سنانے کے لیے بلایا گیا۔

تاجکستان کے شہر دوشانبے سے آنے والی شاعرہ زیب النساء مالاخووا نے اگرچہ اپنے کلام سے نہ سہی تو اپنی آواز اور انداز سے لوگوں کا دل ضرور جیتا۔

مشاعرے میں پاکستان کے علاوہ ترکی، تاجکستان اور جاپان سے بھی شعرا نے شرکت کی

میرے پیچھے بیٹھے سامعین آپس میں ان کے کلام پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ایک نے کہا کہ کلام میں جان نہیں ہے، ہمارے یہاں کیا کم شعرا ہیں جو انھیں بلایا گیا تو دوسرے نے کہا اردو ان کی مادری زبان نہیں ہے اور اگر وہ اس میں شرکت نہ کریں گي تو پھر سیکھنے کو کہاں ملے گا۔

انھوں نے اپنی ایک غزل استاد بڑے غلام علی خاں کی دھن میں سنائی اور داد سخن کے ساتھ ساتھ داد گلوکاری بھی حاصل کی۔

اے حسن بے پروا تجھے، شبنم کہوں شعلہ کہوں پھولوں میں بھی شوخی تو ہے، کس کو مگر تجھ سا کہوں

پاکستان کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا کہ ہندوستان ایک ’اِنکلسیو‘ لفظ ہے جس میں سب شامل ہے، ان کی مراد پورے برصغیر سے تھی۔ انھوں نے پاکستان میں شدت پسندی کی صورت حال پر نظم پڑھی اور داد سخن حاصل کی۔

کامنا پرشاد نے کہا کہ یہی مشاعرہ آج سنیچر کی شام ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ہوگا۔

اردو اور مشاعرے میں دلچسپی رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے

واضح رہے کہ پٹنہ کو اردو ادب میں دبستان عظیم آباد کے نام سے جانتے ہیں اور بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔

منتخب اشعار آپ بھی سنتے چلیں:

عظیم تھے یہ دعاؤں میں اٹھنے والے ہاتھ نہ جانے کب انھیں کاسہ بنا لیا میں نے

وسیم بریلوی، بھارت

تیری یادوں کے گھپ اندھیروں میں، جگنوؤں کے دیے جلاتا ہوں عشق کی آگ جتنی دل میں ہے، آنسوؤں سے اسے بجھاتا ہوں

پروفیسر سویمانے، اوساکا، جاپان

یہی ہیں کاغذی انڈو کے بچے، یہ لیڈر جتنے ڈھالے جا رہے ہیں نہ اماں ہے کوئی ان کی ابا، مشینوں سے نکالے جا رہے ہیں

پوپولر میرٹھی، بھارت

بجھ گیا رات وہ ستارا بھی، حال اچھا نہیں ہمارا بھی زندگی ہے تو جی رہے ہیں ہم، زندگی ہے تو ہے خسارا بھی

اجمل سراج ہم اسے بھولے ہوئے تو ہیں کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا

اجمل سراج، کراچی پاکستان،

لاکھ ہم نے سمجھایا، پیار ویار مت کرنا نوجوان لڑکوں نے کب کسی کی مانی ہے

لڑکیوں پہ کیا گذری، کچھ بتا نہیں پاتیں زخم عمر بھر کا ہے، اور بے زبانی ہے

نسیم نکہت، بھارت

جی چاہتا ہے کاش وہ مل جائے راہ میں حالانکہ معجزوں کا زمانہ تو ہے نہیں

بظاہر دوستی یاری بہت کی، ہماری دلداری بہت کی محبت تو نہیں کی اس نے، محبت کی اداکاری بہت کی

ریحانہ روحی، کراچی پاکستان