جامعہ قاہرہ 1908ء میں قائم ہوئی تو اس کانام جامعہ فواد الاول تھا پھریہ جامعہ مصریہ کہلائی اورآج جامعہ قاہرہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے ۔اس جامعہ میں اقبال شناسی کی روایت کے بنیادگزاروں میں سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کانام لیناچاہیے جو جامعہ قاہرہ میں ترکی اور فارسی زبانیں پڑھاتے رہے اورپاکستان سمیت مختلف ممالک میں مصر کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں جنہوں نے اقبال کے زمانہ قیام مصر میں ان کی ترجمانی کے فرائض انجام دیے اور عالم عرب میں اول اول کلام اقبال کے عربی مترجمین کی صف میں جگہ پائی انہوں نے اقبال پر کتاب بھی لکھی جو’’ محمد اقبال سیرتہ وفلسفتہ وشعرہ ‘‘کے عنوان سے وطن عزیز سے شائع بھی ہوچکی ہے۔اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر طٰہٰ حسین نے لکھاہے اور اس میں عزام کو پیام مشرق ضرب کلیم اور اسرارورموز کے ترجمے پر خراج تحسین پیش کیاہے یہ تراجم بالترتیب مجلس اقبال کراچی،جامعہ الازہرقاہرہ اور دارالمعارف مصر سے 1951ء ،1952ء اور1956ء میں شائع ہوئے ۔
بیسویں صدی کی جس دہائی میں اقبال نے مصر کا دورہ کیا تھا اس کے زیراثرڈاکٹر عبدالوہاب عزام، علامہ طنطاوی جوہری اور حسن الاعظمی کی کاوشوں سے یہاں اخوت اسلامیہ کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی جس کا شعار اقبال کا ترانہ ملی بنا اور اس کا عربی ترجمہ تمام تقریبات میں پڑھاجانے لگا ۔پروفیسر حسن الاعظمی کی کوشش سے پیام اقبال کو مصریوں سے متعارف کروانے کے لیے 1938ء میں کلیۃ الآداب کے عمید اور ممتاز مصر ی ادیب اور نثر نگار ڈاکٹر طٰہٰ حسین کی اجازت سے کلیۃ الآداب میں دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ اردو کی تدریس کا آغازہوا۔جس کی کچھ تفصیل ہم اپنے گزشتہ کالموں میں پیش کرچکے ہیں۔یہاں کے پہلے استاذ پروفیسر حسن الاعظمی نے ایم اے کے بیس طلباء کو فکر اقبال سے آگاہ کرنے کے لیے لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا ۔اگلے ہی سال1939ء میں ان طلباء نے درخواست کی کہ اردو کو بطور ایک علمی زبان کے ترکی اور فارسی کے ساتھ کلیۃ الآداب کے شعبے السنہ شرقیہ میں شامل کیاجائے ۔بعدازاںیہ مطالبہ پورا ہوگیا۔ڈاکٹر عبدالوہاب عزام اپنے زمانہ قیام لندن میں اقبال سے متعارف ہوچکے تھے اور اور ترکی فارسی جرمن اور انگریزی زبانوں سے واقف تھے اب انہوں نے حسن الاعظمی سے اردو بھی سیکھ لی یوں رفتہ رفتہ اردو مصر میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئی اور 1939ء میں مجلس الجامعہ ، مجلس الوزرا اور مصری پارلیمنٹ کے اتفاق کے بعد شاہ فاروق کے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایک علمی زبان کی حیثیت سے جامعہ مصریہ (اب جامعہ قاہر)میں اردو کی باقاعدہ تدریس شروع ہوگئی جس کا سلسلہ آج مصر کی پانچ بڑی جامعات تک پھیل چکا ہے ۔یوں گویا مصر میں اردوکی بنیاد رکھنے والے سکالرزہی اقبال شناسی کی روایت کے بانی بھی ہیں اور اس بنیاد میں مشہور مصری دانشور استاد اور سابق وزیر تعلیم ڈاکٹر طٰہٰ حسین کابھی حصہ ہے جو اگرچہ اقبال سے نہیں ملے لیکن انہوں نے اقبال پر ایک قابل توجہ مضمون(ایک شاعر جس نے دنیازمانے پر اپناسکہ بٹھادیا) لکھا، ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب اس مضمون کا اردو ترجمہ کرچکے ہیں۔
جامعہ قاہرہ میں اقبال شناسی کی روایت کا ایک نمایاں نام ڈاکٹر حسن حنفی کاہے جن سے ہماری ٹیلی فونی گفتگوتوہوچکی تھی پہلی ملاقات جامعہ قاہرہ کے صدسالہ جشن میں ہوئی ۔ہمیں اس بات کا علم ہوچکاتھا کہ ڈاکٹرحسن حنفی نے ،جو جامعہ قاہرہ کے فلسفہ کے استاد ہیں ،اور کئی ممالک میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں اقبال پر کتاب لکھی ہے لیکن یہ کتاب دیکھنے کا موقع نہیں ملاتھا۔ جامعہ قاہرہ کے صدسالہ جشن میں جب ہم ایک دوسرے سے ایک عالم شناسائی میں ملے تو ڈاکٹر حسن حنفی کہنے لگے کہ ان کی جوکتاب ابھی شائع بھی نہیں ہوئی ہے آپ کو ابھی سے اس کا علم بھی ہوچکاہے اور آپ اس کے جویاہیں ۔ پیرامیزاہوٹل قاہرہ میں جہاں جامعہ قاہرہ کی صد سالہ تقریبات کا علمی اجلاس تھا ہماری پہلی ملاقات ہوئی ۔اس سے چند روز قبل ڈاکٹر حسن حنفی ہی نے فون پر قاہرہ یونیورسٹی کے جشنِ صد سالہ کے سلسلے میں ہونے والے اس سیمینار میں شر کت کی دعوت دی تھی ،آج اس سیمینار کا دوسرا دن تھا ، ہوٹل پیرامیزاوہی ہوٹل تھا جوقاہرہ آمد کے فوراً بعدہمارا پہلا مستقر بنا ۔یہیں ہمارے قیامِ مصر کا پہلا ہفتہ گزرا، یہیں سے پہلی بارپاکستان سفارت خانے اور جامعہ الازہرجاناہوا ۔یہیں سے ہم ایک عارضی اپارٹمنٹ میں منتقل ہوئے ۔جہاں دس روزہ قیام کے بعد ہم اپنی نئی رہائش میں منتقل ہوئے ۔پیرامیز میں ہونے والے سیمینار کا موضوع Future of Higher Education in Egypt. تھا،اور ڈاکٹر حسن حنفی سٹیج پر بیٹھے تھے ۔سیمینار کا مجموعی موضوع’’ آداب القاہرہ فی مؤیتھاالثانیۃروئیۃ مستقبلیۃ‘‘ یعنی ’جامعہ قاہرہ کے کلیۃ الآداب کی دوسر ی صدی ۔۔۔مستقبل کے تناظرمیں تھا‘کلیۃ الآداب سے مراد فیکلٹی آف آرٹس ہے ،یہاں اس فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر احمد اے زید صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ہم نے ان سے ان کے ادارے میں اردو کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں اردو کا شعبہ نہیں ہے بس ایک شعبے میں چھوٹا سا جزو ہے ہم نے انہیں بتایا کہ اگرچہ یہ آپ کی فیکلٹی کے قسم اللغات الشرقیہ کا ایک جزوہے لیکن یہ جزو پون صدی پرانا ہے اور اس سے ڈاکٹر امجدحسین صاحب جیسے فاضل وابستہ رہے ہیں۔ انہیں شاید شعبے کی قدامت کا اندازہ نہ تھا البتہ ڈاکٹر امجد صاحب سے وہ واقف تھے ،ہم نے ان سے جامعہ قاہرہ کی تاریخ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی وقت ہمارے ہاں آئیں تو میں آپ کو پیش کروں گا ۔ڈاکٹر حسن حنفی نے بتایا کہ علامہ اقبال پر ان کی کتاب بیروت سے چھپ گئی ہے لیکن ابھی شائع نہیں ہوئی وہاں کے ناشرین کا اپنا کوئی طریقہ ہے جس کے تحت وہ سیزن کے لحاظ سے کتابیں ریلیز کرتے ہیں یعنی سمر سیزن ،ونٹر سیزن وغیرہ ۔میں نے کہا کہ پھر اب تو سمر سیزن شروع ہو چکا ہے تو انہوں نے کہا کہ اگلے ماہ شروع ہو گا بہر حال اگلی ملاقات میں آپ کومسلم فلاسفی پر اپنی کتابیں پیش کروں گا اور اگر اس وقت تک یہ کتاب نہ ملی، جس کا اب تک ایک نسخہ بھی مجھ تک نہیں پہنچا ، تو میں آپ کو اس کی ایک سوفٹ کاپی دوں گا ۔
یہاں ڈاکٹر حسن حنفی کے ساتھ جامعہ قاہرہ کے پروفیسر آف کونسلنگ سائیکالوجی عبداللہ ایم سلیمان صاحب اورسائیکالوجی ہی کے ایک اور استاد (استاذ علم النفس و تنمیۃ الابداع)ڈاکٹر زین العابدین درویش صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔دوسرے سیشن میں بھی شرکت کی جس کے بعد تاثرات کا دور چلا ،اور پھر مقررین نے سوالوں کے جواب دیے ۔اس کے بعد لنچ تھا۔ ڈاکٹر حسن حنفی کا اصرار تھا کہ میں لنچ میں بھی شرکت کروں اور اس مقصدکے لیے انہوں نے بطور خاص مجھے اس کا دعوت نامہ بھی دیاتھا ۔ان کے ڈین صاحب نے بھی ان کی ہمنوائی کی لیکن میں لنچ کے وقت ان سے رخصت ہوکر ہوٹل کی اس سمت میں چلاگیا جہاں ہم نے قیام قاہرہ کے ابتدائی دن گزارے تھے ۔
There is no related posts.
Najam Wali Khan
سلیم احسن
حبیب اللہ سلفی
ناصر زیدی
ڈاکٹر تہذیب فاطمہ
اعجاز احمد
حافظ شفیق الرحمن
فاروق قیصر
مستنصر حسین تارڑ
وکیل انجم
مجاہد بریلوی
سہیل سانگی
منیر احمد خلیلی