اکیس برس گزرے آزادئ کامل کو تب جا کے کہیں ہم کو غالبؔ کا خیال آیا اردو پہ ستم ڈھا کر غالبؔ پہ کرم کیوں ہے ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں جس عہد سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے اب اپنے سخن پرور ذہنوں میں سوال آیا گاندھیؔ ہو کہ غالبؔ ہو انصاف کی نظروں میں تربت ہے کہاں اس کی مسکن تھا کہاں اس کا معتوب زباں ٹھہری غدار زباں ٹھہری جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوا برسوں یہ جشن یہ ہنگامے دلچسپ کھلونے ہیں ہم دونوں کے قاتل ہیں دونوں کے پجاری ہیں کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ بہل جائیں جو وعدۂ فردا پر اب ٹل نہیں سکتے ہیں سو سال سے جو تربت چادر کو ترستی تھی غالبؔ جسے کہتے ہیں اردو ہی کا شاعر تھا یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری ممکن ہے کہ کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں آزادئ کامل کا اعلان ہوا جس دن اس عہد سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا123456789101112131415161718192021222324