آزادی کا سہما سہما اڑسٹھواں جشن

آزادی کا سہما سہما اڑسٹھواں جشن
تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات ایوان پارلیمان کے صحن میں پاکستان کا اڑسٹھواں یوم آزادی منانے کے لیے ایک سہمی سہمی سی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ خاصی غیر معمولی تقریب تھی۔ گذشتہ کئی سالوں سے قومی دنوں پر ایسی تقریبات کا رواج تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ اس بار یہ تقریب منانے کی وجہ اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے عین اسی روز ہونے والے لانگ مارچ کا اثر کم کرنا بھی ہوسکتا ہے اور شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب بھی۔ لیکن یہ فیصلہ بھلے کسی بھی وجہ سے کیا گیا ہو، تقریب پر لانگ مارچ اور ضرب عضب کا سایہ غالب رہا۔ یوم آزادی کی تقریبات کے دعوت نامے تو اسلام آباد کی سول انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گیے تھے لیکن تقریب کا سارا انتظام و انصرام پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سپرد تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تقریب میں غیر منظم سویلین جوش و خروش کی بجائے پر رعب ڈسپلن کی فضا غالب رہی۔ ۱۳ اگست کی دوپہر سے پارلیمنٹ ہاوس کے حفاظتی انتظامات فوج کے سپرد کردیے گیے تھے اور عمارت کے ہر کونے کھدرے کی تلاشی کے بعد اسے سیل کردیا گیا۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج کے پیش نظر ریڈ زون کے سبھی راستوں پر کنٹینرز دو روز پہلے سے ہی لا کے دھر دیے گئے تھے۔
تقریب کے پہلے حصے میں چند معروف گلوگاروں بشمول راحت فتح علی خان اور سارہ رضا خان سے چار نغمے گوائے گئے اور نظریہ پاکستان پر ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ نظریہ نامی اس فلم کا آغاز و اختتام مسلح افواج کی ویڈیوز پر ہی ہوا۔
تقریب میں موبائل ٹیلیفون، کیمرے و دیگر الیکٹرانک اشیا کا داخلہ ممنوع تھا۔ تاہم تین مقامات پر چیکنگ کے باوجود کئی افراد فوجیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ممنوع اشیا اندر لےجانے میں کامیاب رہے۔ گیارہ بجے کے قریب وزیر اعظم اور آرمی چیف کی الگ الگ آمد کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تقریب میں ملک کی بیشتر سیاسی و عسکری قیادت موجود تھی۔ کابینہ کے اراکین میں سے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی غیر موجودگی نمایاں طور پر محسوس کی گئی۔دیگر سیاسی رہنماوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی و سینیٹ میں اپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ اور اعتزاز احسن تقریب میں شامل رہے۔ وزیراعظم کی نشست چیف آف آرمی سٹاف اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے درمیان مخصوص کی گئی تھی۔ وہ تقریب میں اپنی کابینہ کے ارکان سے کٹے ہوئے اور خاصے سنجیدہ نظر آئے۔ سوائے ایک ملی نغمے کے دوران ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دکھائی دی۔
یوم آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں سترنگ پاکستان کے نام سے تشہیری مہم چلائی گئی تھی جس میں ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد کو پاکستان کے چہرے کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور مہم کا نعرہ اتحاد بذریعہ تکثیریت رکھا گیا تھا۔ لیکن تقریبات میں پاکستان کے غیر فوجی ہیروز کو بری طرح سے نظر انداز کیا گیا۔ باوجودیکہ تحریک آزادی پاکستان خالصتاً سیاسی تحریک تھی کسی بھی سیاسی ہیرو حتی کہ سرسید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے سرکاری طور پر تسلیم شدہ مشاہیر تک کو خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی غالباً پندرہ اگست کی تقریر کا ذرا سا حصہ دو ایک بار چلایا گیا۔ اس کے علاوہ پوری تقریب بشمول مہمان خصوصی وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد نواز شرف کی تقریر کے افواج پاکستان بالخصوص پاکستان آرمی کی مدح سرائی پر مشتمل تھی۔ تقریب کے پہلے حصے میں چند معروف گلوگاروں بشمول راحت فتح علی خان اور سارہ رضا خان سے چار نغمے گوائے گئے اور نظریہ پاکستان پر ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ نظریہ نامی اس فلم کا آغاز و اختتام مسلح افواج کی ویڈیوز پر ہی ہوا۔ مبہم (بلکہ اگر مہمل بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) سے پیغام والی اسی ویڈیو میں عسکریت پسندی کے خلاف ایک واضح پیغام البتہ موجود تھا۔
اس کے بعد باوردی بینڈ اور افواج پاکستان کے دستوں نے اپنے اصلی فن یعنی پریڈ کا مظاہرہ کیا جبکہ اس دوران وزیر اعظم پاکستان کو ان کی نشست سے اٹھا کر پریڈ کے معائنے کے لیے منبر پر لا کھڑا کیا گیا۔ تقریب کے شرکا میں آرمی میڈیکل کور کے نوجوان مرد افسران کی بڑی تعداد بھی موجود تھی جبکہ ساڑھی پوش خاتون افسران کی ایک نسبتاً کم تعداد بھی دیکھنے میں آئی۔ خواتین کو خاکی وردی میں ملبوس دیکھنا ایک خوشگوار تجربہ رہا۔ پریڈ کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان آرمی موسیقی کا ایک سکول بھی چلاتی ہے اور مسلح افواج کا بینڈ وہیں سے تربیت یافتہ ہے۔ بینڈ کی کارکردگی واقعتاً متاثر کن تھی۔ عین بارہ بجے
لمبی بندوقوں اور تنے ہوئے فوجی چہروں کے بیچ سویلین افسران اور عام لوگ شرمندہ شرمندہ سے پھرتے رہے۔ یوں پاکستان مستقبل کی بے یقینی اور حال کی بے بسی کے ہمراہ اپنے قیام کے اڑسٹھویں سال میں داخل ہوگیا۔
پاکستان کا قومی ترانہ بجا کر اڑسٹھویں یوم آزادی کو خوش آمدید کہا گیا جس کے بعد وزیر اعظم نے شرکا سے خطاب کیا۔ مضمحل، پریشان اور تھکاوٹ زدہ آواز میں انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز آپریشن ضرب عضب کو سراہنے سے کیا اور اڑسٹھویں یوم آزادی کو بھی ضرب عضب سے موسوم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کے خطاب کا کم از کم ایک تہائی حصہ افواج پاکستان سے متعلق تھا۔ داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ انہوں نے سفراء کی کافی تعداد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خارجہ پالیسی سے متعلق اہم بیانات دیے۔ کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر انہوں نے ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے پر زور دیا اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے عزم کو دہراتے ہوئے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ انہوں نے جاری سیاسی بحران کے تذکرے سے شعوری طور پر احتراز برتتے ہوئے دو مقامات پر جمہوریت کے تسلسل کو ملکی ترقی سے جڑا ہوا قرار دیا۔
تقریر کے اختتام پر انہیں باوردی دستوں نے سلامی دی جس کے بعد پاکستان فضائیہ کے ایف سولہ، جے ایف تھنڈر اور میراج طیاروں نے گھن گھرج کے ساتھ روشنیوں والے گولے گرا کر آسمان کو منور کردیا۔ تقریب کے اختتام پر آتش بازی کا خوبصورت مظاہرہ کیا گیا جو غالباً ہمارے ہاں کی قومی تقریبات میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔

IMG_20140814_003552-(1)

خاتمے کے ساتھ ہی حکام رخصت ہوگئے جبکہ عوام نے کچھ آزادی کی سانس لی اور نشستیں چھوڑ کر پنڈال کا طول و عرض ماپنے پھیل گئے ۔ عسکری قیادت میں سے آئی ایس پی آر کے میجر جنرل عاصم باجوہ لوگوں سے ملتے رہے۔ ملکی حالات اور عسکری روایات کے پیش نظر مسلح کمانڈوز تقریب کے درمیان اور چاروں طرف موجود رہے۔ لمبی بندوقوں اور تنے ہوئے فوجی چہروں کے بیچ سویلین افسران اور عام لوگ شرمندہ شرمندہ سے پھرتے رہے۔ یوں پاکستان مستقبل کی بے یقینی اور حال کی بے بسی کے ہمراہ اپنے قیام کے اڑسٹھویں سال میں داخل ہوگیا۔
Salahuddin Safdar

Salahuddin Safdar

Salahuddin Safdar is a graduate of mass communication from University of the Punjab, he is currently pursuing his M. Phil from Quaid-e-Azam University. He is working with the National Assembly of Pakistan as parliamentary researcher.


Read More...

یو ای ٹی ٹیکسلا چھ نئے مضامین متعارف کرائے گی

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلااگلے تعلیمی سال کے دوران چھ نئے تعلیمی کورسز متعارف کرائے گی۔

انتظامی دباو پر غیر منظور شدہ ادارے کے 700 طلبہ کی رجسٹریشن

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے سیکرٹری نیشنل ہیلتھ سروسز کی مداخلت پر کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان ( سی پی ایس پی) کے 700 طلبہ کی ڈگریاں رجسٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کوٹہ سسٹم توسیع: مساوی اور یکساں تعلیمی نظام کی ضرورت

محمد شعیب     کوٹہ سسٹم وسائل اور مواقع سے محروم طبقات کے افراد کی پسماندگی دور کرنے کا ایک

No comments

Write a comment
No Comments Yet! You can be first to comment this post!

Write a Comment

Leave a Reply