13 August 2014, 18:22

ہمارے تعاون کی قوی استعداد کو عمل میں لایا جانا چاہئے: روس میں پاکستان کے سفیر

ہمارے تعاون کی قوی استعداد کو عمل میں لایا جانا چاہئے: روس میں پاکستان کے سفیر
ڈاؤن لوڈ

چودہ اگست کو پاکستان کے عوام ایک بڑا جشن یوم آزادی مناتے ہیں۔ اس موقع پر روس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفیر جناب ظہیر اسلم جنجوعہ کا ریڈیو "صدائے روس" کے لیے تخصیصی انٹرویو۔

نامہ نگارہ: سفیر عالی مقام، اجازت دیجیے کہ سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے انٹرویو کے لیے وقت دیا اور پھر آپ کو اور پاکستان کے تمام عوام کو پاکستان کے "یوم آزادی" کے جشن پر مبارک باد دیتی ہوں۔ میرا پہلا سوال روس اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ہے کہ آپ ان کی موجودہ حالت کو کیسا سمجھتے ہیں اور مستقبل میں ان کے فروغ کے امکانات، آپ کی نظر میں کیسے ہیں؟

     سفیرمحترم: خیر مبارک! اور آپ کا شکریہ۔ یہ ہمارے لیے ایک اہم دن ہے اور ہمارے لیے بہت بڑی تقریب بھی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم اسے بھرپور طریقے سے منائیں گے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو مجھے سب سے پہلے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ روس ایک عظیم ملک ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات فروغ پائیں۔ میں یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں کہ کئی معاملات کے بارے میں ہمارے موقف مماثل ہو چکے ہیں۔ ہم دو طرفہ سطح پر اور اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بشمول اقوام متحدہ جیسی تنظیم میں اشتراک عمل کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ عالمی سیاست کثیرالقطبی ہونی چاہیے اور ہم معاصر دنیا میں روس کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہیں، آئندہ بھی کئی میدانوں بشمول معیشت، زراعت، ثقافت وغیرہ کے سلسلے میں تعلقات کو فروغ دیے جانے کی خاطر ہمارے لیے تمام امکانات موجود ہیں۔ یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ ماضی قریب میں دونوں ممالک کے بیچاعلٰی سطحی دوروں کا تبادلہ ہوا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹ کے چیرمین کے علاوہ پاکستان کے وزیر دفاع اور بجلی و آبی وسائل کے وفاقی وزیر روس آئے تھے۔ جواب میں روس کے نمائندوں نے بھی پاکستان کے دورے کیے۔ چنانچہ ہمارے آپس کے تعلقات کے فروغ کے امکانات خاصے روشن ہیں۔

     نامہ نگارہ:جناب سفیر! از راہ کرم یہ بتائیے کہ کیا پاکستان کو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان،ہندوستان گیس پائپ لائن تعمیر کیے جانے میں دلچسپی ہے اور پاکستان اس منصوبے میں روس کی شرکت کو کیسے دیکھتا ہے؟

     سفیر محترم: آپ کا یہ سوال بہت دلچسپ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ ترکمانستان میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور جنوبی ایشیا میں گیس کی طلب ہے۔ چنانچہ ہم اس منصوبے پر عمل درآمد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ روس میں نہ صرف قیمتی معدنیات بشمول گیس کے ذخائر موجود ہیں بلکہ وہ مقامی ٹکنالوجی کا استعمال کرکے ان کو نکالنے کا بھی وسیع تجربہ رکھتا ہے اس لیے روس اس منصوبے میں اہم معاونت کر سکتا ہے۔ ہم روس کی اس منصوبے میں شرکت کا خیر مقدم کریں گے۔

    نامہ نگارہ: لیکن چونکہ گیس پائپ لائن کو افغانستان کی سرزمین سے گذرنا ہوگا تو کیا اس حوالے سے مسائل اور دشواریاں درپیش نہیں ہوں گی؟

     سفیر محترم: اس قسم کے بین الاقوامی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے دوران ہمیشہ ہی مشکلات اور مسائل سے سابقہ پڑتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ باہمی کوششوں کے ذریعے ان مسائل پر قابو پا لیا جانا ممکن ہوگا۔ نامہ نگارہ: میرا اگلا سوال ہمارے ملکوں کے عسکری تکنیکی تعاون سے وابستہ ہے۔ آپ اس کے امکانات کو کیسے دیکھتے ہیں؟ سفیر محترم: جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مختلف میدانوں، بشمول عسکری تکنیکی میدان میں تعاون کے ہمارے تعلقات کے فروغ پانے کے امکانات اچھے ہیں۔ ہم نے اس میدان میں سوویت یونین کے زمانے میں 1970 کی دہائی میں اچھا بھلا تعاون کیا تھا اور پھر روس کے ساتھ 2000 میں جب پاکستان نے روس سے ہیلی کاپٹر خریدے تھے۔ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں شرکائے کار ہیں، اس تعاون کو وسیع تر کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔

    نامہ نگارہ:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو شنگھائی تنظیم تعاون میں مکمل رکن کے طور پر لے لیا جائے گا؟

     سفیر محترم: شنگھائی تنظیم تعاون بہت اہم بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اس کے اراکین میں روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں اور اسی طرح وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان اس تنظیم میں بطور مبصّر شریک ہے۔ ہم روس کے مشکور ہیں کہ وہ اس تنظیم کی مکمل رکنیت کے لیے ہماری کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اس ضمن میں حائل کچھ دشواریوں سے اس موسم خزاں میں دوشنبے میں ہونے والی سمٹ میں نمٹ لیا جائے گا اور امید ہے کہ اگلی سمٹ جو روس میں ہوگی، پاکستان کو اس تنظیم کی مستقل رکنیت مل جائے گی۔ نامہ نگارہ: سفیر عالی مقام انٹرویو دینے کے لیے آپ کا شکریہ، اجازت دیجیے کہ ایک بار پھر آپ کو جشن ازادی پاکستان کے موقع پر مبارک باد دوں۔

  •  
    شیئر کریں
سن 2014 میں پیش آنے والا اہمترین واقعہ کیا ہے؟
 
ای میل